اسرائیل میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو 60 برس کے دوران پہلی بار صحرا میں
ایک غار ملی ہے جس میں کسی زمانے میں قدیم دستاویزات موجود تھیں۔ اسرائیل
کی ہِبرو یورنیورسٹی کے مطابق اس غار سے قدیم دستاویزات غائب ہیں اور بظاہر
ایسا لگتا ہے کہ 1950 کی دھائی میں بدوؤں نے اس غار کو لوٹ لیا تھا۔ غار
سے دستاویزات کو رکھنے والے مرتبان اور انھیں باندنے والی چمڑے کے تسمے ملے
ہیں۔ غار سے جن دستاویزات کے آثار ملے ہیں ان کے بارے میں خیال کیا جاتا
ہے کہ وہ چوتھی صدی قبل از مسیح سے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کی تقریباً
آٹھ سو دستاویزات ہیں جو ہِبرو، ارامی اور یونانی زبانوں میں چمڑے پر لکھی
گئی ہیں۔ ان دستاویزات میں قدیم دور میں انسانوں کی طرزِ زندگی کے بارے
میں بہت سی معلومات
درج ہیں۔ خیال رہے کہ سب سے پہلے 1947 میں فلسطین میں
یہ دستاویزات دریافت ہوئی تھیں۔ اگرچہ یہ واضح نہیں کہ ان قدیم دستاویزات
کو کس نے لکھا تھا لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یہودی کے ایک قدیم فرقے نے یہ
دستاویزات مرتب کی تھیں۔ ہِبرو یورنیورسٹی سے وابستہ آثارِ قدیمہ کے ماہر
ڈاکٹر گٹفلڈ کا کہنا ہے کہ اب تک یہی سمجھا جاتا تھا یہ دستاویزات قمران
کے علاقے میں واقع گیارہ غاروں سے ہی ملی ہیں، لیکن اس میں اب کوئی شک
نہیں کہ یہ بارہویں غار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے جن
لوگوں کو یہ دستاویزات ملی تھیں وہ انھیں ساتھ لے گئے اور جن مرتبانوں میں
یہ دستاویزات موجود تھیں انھیں غار میں ہی پھینک دیا گیا۔ ڈاکٹر گٹفلڈ کے
بقول عین ممکن ہے کہ اس طرح کی کئی سو مزید غاریں بھی ہوں۔